Sunday 30 October 2011

دین میں تزکیہء نفس کی اہمیت اور اس کی عمومی ضرورت

دین میں تزکیہء نفس کی اہمیت اور اس کی عمومی ضرورت


انبیاء کی بعثت کا اصلی مقصد؟
اگر یہ سوال کیا جائے کہ انبیاء علیہم السّلام کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کا حقیقی مقصود کیا ہے؟ وہ کیا غرض ہے جس کے لیے اس نے نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری کیا اور شریعت اور کتابیں نازل فرمائیں؟ تو اس کا صحیح جواب صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ________ نفوسِ انسانی کا تزکیہ _______ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لیے دعا فرمائی، اس میں آپ کی بعثت کی اصلی غایت یہی بیان فرمائی ہے کہ آپ ؐ لوگوں کا تزکیہ کریں۔
 
ۤرَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ (بقرہ ١٢٩)
اور اے ہمارے رب! تو ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بے شک تو غالب حکمت والا ہے۔
 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے مطابق جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی بعثت اور اس کے مقاصد کا حوالہ ان الفاظ میں دیا:
 
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ١٥١)
چنانچہ ہم نے تم میں ایک رسول تمہی میں سے بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
 
اسی طرح سورہ جمعہ میں آپؐ کی بعثت اور اس کے اغراض و مقاصد کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل پر ان الفاظ میں احسان جتایا ہے:
 
ۤ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی خدا ہے جس نے امیوں (بنی اسمٰعیل) میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
 
ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ مذکورہ بالا آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں جہاں تزکیّہ کا ذکر آیا ہے وہیں تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا ذکر بھی آیا ہے تو ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصلی مقصد صرف تزکیہ ہی کو کیسے قرار دیا؟ آخر دوسری چیزیں بھی تو اسی اہمیت کے ساتھ مذکور ہوئی ہیں وہ کیوں اصلی مقصد قرار پانے کی مستحق نہیں ہیں؟
 
ۤۤۤاس کا جواب یہ ہے کہ خود قرآن مجید کے اسلوبِ بیان نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ مذکورہ آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلی مقصد بعثت کی حیثیت سے جس چیز کا ذکر ہوا ہے وہ تزکیہ ہے۔ باقی اس کے ساتھ دوسری چیزیں _____ تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت ہے______ جو مذکور ہوئی ہیں تو وہ اصلی مقصد کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اصلی مقصد کے وسائل و ذرائع کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں سے ایک آیت (آیت ۔١٢٩) میں تزکیہ کا لفظ سب سے آخر میں آیا ہے اور دوسری آیت (آیت ۔ ١٥١) میں سب کے شروع میں آیا ہے۔ ایک غور کرنے والا شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایک ہی بات کے بیان کرنے میں اسلوب کو یہ ردوبدل کم از کم قرآن مجید میں بلا وجہ نہیں ہو سکتا اب غور کیجیے کہ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ہماری سمجھ میں اس وجہ یہ آتی ہے کہ اس تقدیم و تاخیر سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نبیؐ کی تمام جدوجہد اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور و مقصود دراصل تزکیہ ہی ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد ہی کی یہ اہمیت ہوتی ہے کہ وہ شروع میں بھی ایک کام کرنے والے کے پیش نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی ___ وہی اس کی تمام سرگرمیوں کا نقطہ آغاز بھی ہوتا ہے اور وہی نقطہ اختتام بھی ____ وہیں سے وہ اپنا سفر شروع بھی کرتا ہے اور وہیں اس کو ختم بھی کرتا ہے۔
 
کسی اسکیم کے اندر جو چیز مقصدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ عمل میں اگرچہ موخر ہوتی ہے لیکن ارادہ اور خیال میں مقدم ہوتی ہے۔ آپ ایک مکان کی تعمیر سے جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ سکونت کی راحت ہے اور یہ چیز عین اس وقت بھی آپ کے سامنے ہوتی ہے جب کہ آپ ایک مکان کا نقشہ ابھی کاغذ کے صفحہ پر بنا رہے ہوتے ہیں۔حالانکہ کہ عملاً یہ چیز حاصل اس وقت ہوتی ہے جب مکان بن چکتا ہے اس پہلو سے دیکھیے تو مکان کی تعمیر سے جو اصل مقصد ہے (یعنی سکونت کی راحت) وہ شروع میں بھی آپ کے پیشِ نظر ہے اور آخر میں بھی پیشِ نظر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شروع میں آپ نے اس کو فکراً اور ارادتاً سامنے رکھا ہے اور آخر میں نتیجتہً اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ ایک مکان کی تعمیر کے لیے اینٹ زمین پر جماتے ہوئے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس سے سکونت کی لذّت و راحت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس وقت بھی کہہ سکتے ہیں جب کہ تمام مراحل تعمیر سے گزر کر اس کے کونے کی آخری اینٹ بھی رکھی جا چکی ہو کیوں کہ درحقیقت یہی چیز ہے جو آپ کی تمام تعمیری سرگرمیوں میں شروع سے آخر تک پیشِ نظر رہی ہے۔ ظاہر میں آپ نے پھاوڑے بھی چلائے، اینٹیں بھی پکائیـں آرے بھی چلائے، چونا اور گارا بھی فراہم کیا، دیواریں بھی چنیں اور چھتیں بھی پاٹیں لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی فی نفسہٖ آپ کا مقصود نہیں رہی ہے۔ اس تمام کھیکٹر سے اصلی مقصد درحقیقت آپ کا یہ تھا کہ آپ کو سکونت کی آسائش حاصل ہو۔
 
اس مثال کو سامنے رکھ کر آپ اگر انبیاء کی بعثت کے مقصد کو سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا اصلی مقصد تو لوگوں کے نفوس کا تزکیہ ہی ہوتا ہے اور اسی نقطہ نظر سے وہ اپنی تمام دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں
 
کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس مقصد کی خاطر انہیں بہت سے ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو اس مقصد کے حصول کا وسیلہ و ذریعہ ہوتے ہیں۔اس کے لیے وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہیں، اس کے لیے وہ حکمت کا درس دیتے ہیں۔ مگر مقصود ان سارے کاموں سے صرف تزکیہ ہوتا ہے جو شروع میں بھی ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی وہی ان کی تمام جدوجہد کی غایت بنتا ہے چنانچہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ بالا آیات میں سے ایک آیت میں اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سرگرمیوں کے نقطہ آغاز کی حیثیت سے نمایاں کیا ہے اور دوسری آیت میں اس کی غایت اورمنتہا کی حیثیت سے۔
 
علاوہ ازیں قرآن مجید میں اس کی بھی صاف تصریح موجود ہے کہ تزکیہ ہی وہ اصلی کام ہے جس کے لیے لوگوں کو نبی سے رجوع کرنا چاہیے اور نبیؐ کا فرض ہے کہ جو لوگ اس غرض کے لیے اس سے رجوع کریں، ان کو وہ ہرگز مایوس نہ کرے، چنانچہ ایک موقع پر بعض اسباب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طالبِ تزکیہ کے معاملے میں تھوڑی سی غفلت ہو گئی تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ میں تنبیہ فرمائی گئی:۔
 
عَبَسَ وَتَوَلَّى أَن جَاءهُ الْأَعْمَى وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى (عبس)
اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا کہ اس کے پاس نابینا آیا، اور تمہیں کیا خبر؟ شاید وہ تزکیہ حاصل کرنے آیا ہو۔
 
اس آیت سے بالکل صاف واضح ہو رہا ہے کہ نبی، خلق خدا کی جس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے وہ ان کے نفوس کا تزکیہ ہے، اس وجہ سے لوگوں کو یہ حق ہے کہ اس غرض کے لیے اس سے رجوع کریں اور نبیؐ کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ لوگوں کی یہ ضرورت پوری کرے۔
 
جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصلی مقصد لوگوں کا تزکیہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا بھی اصلی مقصد اسی چیز کو قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا ہے:۔
 
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَى أَن تَزَكَّى (١٧ ۔ ١٨ ۔ نازعات)
فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے، اور اس سے کہو کہ ہے تیرے اندر کچھ رغبت کہ تُو تزکیہ حاصل کرے۔
 
پھر یہ حقیقت بھی قرآن مجید سے ثابت ہے کہ تزکیّہ ہر شخص کی فلاح و نجاتِ آخرت کے لیے ضروری شرط ہے۔ تزکیہ کی یہ اہمیت بھی تقاضا کرتی ہے کہ یہی چیز انبیاء کی بعثت کی غایت اور ان کی تمام سرگرمیوں کا محور و مقصود قرار پائے، چنانچہ قرآن مجید اس بات پر شاہد ہے کہ آخرت میں انسان کی نجات و فلاح منحصر ہے تمام تر اس بات پر کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ فرمایا ہے:
 
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (شمس)
اس نے فلاح پانی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرے اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کی گندگیوں پر پردہ ڈالا۔
 
اسی طرح دوسری جگہ ہے:
 
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى (الاعلیٰ)
اس نے فلاح پائی جس نے تزکیہ حاصل کیا۔
ظاہر ہے کہ جب آخرت میں انسان کی نجات و فلاح تزکیہ حاصل کرنے پر منحصر ہوئی تو انبیاء علیھم السلام کا، جو انسانیت کے نجات و دہندہ کی حیثیت سے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں، اصلی کام یہی ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کا تزکیہ حاصل کرنے کے طریقے بتائیں۔
 
اوپر کے مباحث سے تین باتیں واضح ہوئیں:۔
ایک یہ کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور تمام انبیاء کی بعثت کا اصلی مقصود ہے، دین میں جو اہمیت اس کو حاصل ہے وہ اہمیت دوسری کسی چیز کو بھی حاصل نہیں ہے۔ دوسری ساری چیزیں وسائل و ذرائع کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ چیز غایت و مقصد کی حیثیت رکھتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سرگرمیاں، خواہ ظاہر میں کتنے ہی مختلف پہلو رکھتی ہوں لیکن باطن میں ان کا ہدف انسان اور انسانی معاشرہ کے تزکیہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
 
دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ تزکیہ کا سرچشمہ اور اس کا منبع و مصدر کتاب اللہ ہے، اسی کی تعلیم سے تزکیہ کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اسی کے اسراروحقائق ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے واضح ہو کر اس تزکیہ کی تکمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی نکتہ ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ جمعہ کی جو آیتیں ہم نے نقل کی ہیں، ان میں تزکیہ کو تلاوت آیات کے ساتھ اس طرح وابستہ کیا ہے کہ یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ تزکیہ درحقیقت تلاوت آیات ہی کے ثمرات و نتائج میں سے ہے:
 
يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ
تم کو ہماری آیتیں سناتا اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے-
يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ
ان کو ہماری آیتیں سناتاہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔
 
تیسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ تزکیہ کا عمل انسانی معاشرہ کے کسی گروہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام افراد اور تمام گروہوں بلکہ پورے معاشرہ سے یکساں طور پر ہے، کوئی شخص بھی اس کے بغیر آخرت میں نجات اور فلاح حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی حیثیت دین میں صرف ایک فضیلت کی نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے لیے ایک ناگزیر انفرادی ضرورت کی ہے۔ یہ نجات اور فلاح آخرت کے لیے ایک ضروری شرط ہے جس کو پورا کیے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں داخل ہو سکتا۔
 
تزکیّہ کا عِلم نہ رَاز ہو سکتا ہے نہ نامکمل:
اگر یہ تینوں باتیں اپنی جگہ پر ثابت ہیں ( اور کوئی شخص بھی ان کے ثابت ہونے سے انکار نہیں کر سکتا) تو ان سے دو نتیجے لازمی طور پر نکلتے ہیں۔
 
ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تزکیہ کے علم کو نامکمل چھوڑ کر دنیا سے تشریف نہیں لے جا سکتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ تزکیہ کو آپ کے مقاصد بعثت میں محض ایک ضمنی جگہ حاصل نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اوپر واضح ہوا، اصل مقصد بعثت یہی ہے۔ پھر جو چیز اصل مقصد بعثت ہو، اس کو پیغمبر ناتمام اور ناقص چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے؟ تزکیہ کی اس اہمیت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جس طرح شریعت کے تمام اُصول کتاب و سنت کے اندر منضبط کر دیے گئے ہیں، اسی طرح تزکیہ کے تمام اصول بھی کتاب و سنت کے اندر منضبط ہوں، جس طرح شریعت کے اندر کسی بے راہ روی کے لیے گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے، اسی طرح تزکیہ کے اندر بھی کسی راہ روی کی گنجائش باقی نہ رہے، جس طرح شریعت کے اندر ایک خاص دائرہ میں اجتہاد کی آزادی کے باوجود کسی شخص کو اس بات کا موقع حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے ذوق یا ذاتی رحجانات یا اپنے شخصی تجربات کو گھسا دے، اسی طرح تزکیہ کے اندر بھی ایک خاص دائرہ میں اجتہاد کی آزادی کے باوجود ایسی حد بندیاں ہونی چاہییں کہ اشخاص و افراد کے اپنے میلانات و رحجانات کی دراندازیوں کے لیے کوئی منفذ باقی نہ رہے۔ جس طرح شریعت کے اندر ہر مجتہد اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کو کتاب و سنت ہی کے اشارات کی کسوٹی پر پرکھتا اور پرکھواتا ہے اور اس کے بغیر اس کا اجتہاد بھی لائق قبول نہیں ٹھہرتا، اسی طرح تزکیہ کے اندر بھی اگر کوئی شخص کوئی بات اپنے اجتہاد سے کہے تو اس کے لیے ناگزیر ہو کہ وہ کتاب و سنت کے اشارات اور نبیؐ اور صحابہؓ کے طرزعمل سے کوئی دلیل لائے۔ محض اپنے ذوق و وجدان کا حوالہ نہ کے ورنہ اس کے اجتہاد کا کوئی وزن نہیں۔
 
دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تزکیہ کا علم کوئی راز نہیں ہو سکتا جو صرف خاص خاص اشخاص ہی کو معلوم ہو اور انہی سے سینہ بسینہ وہ دوسروں کو منتقل ہو۔ تزکیہ ایک عام ضرورت کی چیز ہے، ہر شخص آخرت کی نجات و فلاح کے لیے اس کا محتاج ہے۔ انبیاء آتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ افراد کا بھی تزکیہ کریں اور معاشرہ کا بھی تزکیہ کریں۔ پھر جو چیز اس قدر عمومی ضرورت کی ہو اس کو صرف چند خاص خاص افراد کے سینہ کا راز بنا کے کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ ہر شخص، ہر علم کا اہل نہیں ہوا کرتا، اس وجہ سے اگر ایک شخص اس علم کا ذوق رکھنے والا نہ ہو گا وہ اس سے محروم رہے گا، علی ہذا القیاس اہل علم میں فرق مراتب بھی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے سارے جاننے والے ایک درجہ کے نہیں ہو سکتے، لیکن یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ یہ کوئی، پراسرار علم ہے جس کے جاننے والے صحابہؓ کے زمانہ میں بھی چند ہی افراد تھے اور بعد میں بھی خال خال افراد ہی ہوئے۔ جو چیز ہوا اور پانی کی طرح ہر شخص کے لیے ضروری ہے یہ کس طرح ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بس ایک دو آدمیوں کے کانوں میں پھونک کر چلے جائیں، دوسروں کو اس کی خبر بھی نہ ہونے پائے اور یہ دو ایک آدمی بھی اس کو عام کی بجائے، اس کو راز بنا کر چھوڑ دیں اور صرف انہی اشخاص پر اس راز کو کھولیں جو ان کے محرم راز بن جائیں۔ علم کیمیا کی تعلیم میں تو یہ رازداری چل سکتی ہے لیکن تزکیہ اگر عام ضرورت کی چیز ہے ( اور اس کی عام ضرورت کی چیز ہونے سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے) تو اس میں اس رازداری کا چلنا نہ ممکن ہے اور نہ قرینِ مصلحت۔
 
ہمارے حنفی علماؑ عام ضرورت کی چیزوں میں عموماً خبر احاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے وہ کہتے ہیں کہ جس چیز کا تعلق عام ضرورت سے ہے اس کے بارہ میں ایک دو طریقوں سے روایت کے کیا معنی؟ لیکن یہی حضرات جب تصوّف کے کوچے میں آتے ہیں تو تزکیہ کے علم کو ایک راز ثابت کرنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہــ''ان باتوں کو اہل ظاہر کیا جانیں یہ "اسرار و مواحید" ہیں۔ وہ اس فخر کے نشہ میں اس بات کو بالکل بھول جاتے ہیں کہ اگر تصوف کا منشا تزکیہ نفس ہے تو تزکیہ نفس ایک عام ضرورت کی چیز ہے، پھرایک عام ضرورت کا تقاضا ایک ایسے علم سے کیسے پورا ہو سکتا ہے جو صرف چند سینوں کا ایک راز ہو۔
 
بعض احادیث سے غلط استدلال
جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس سے وہ نتائج نہایت بدیہی طور پر نکلتے ہیں جو ہم نے نکالے ہیں اور عقل عام بھی انہی کی تائید کرتی ہے لیکن ہمارے اہل تصوّف حضرات اس علم کو ایک پراسرار علم ثابت کرنے پر نہایت مصر ہیں، وہ اپنے اس دعوٰے پر جہاں بہت سے مشائخ تصوف کے اقوال سے دلیل لاتے ہیں وہاں بعض آثار بھی پیش کرتے ہیں۔ مشائخ تصوف کے اقوال و اشارات سے تو یہاں بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن جن احادیث و آثار سے انہوں نے استدلال کیا ہے، ان کی حقیقت واضح کرنا ہمارے لیے ضروری ہے ورنہ بہت سے لوگوں کے دلوں میں کھٹک باقی ہی رہے گی۔
 
ان حضرات کا سب سے بڑا استدلال حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک روایت سے ہے جو بخاری شریف میں مندرجہ ذیل الفاظ میں وارد ہوا ہے۔
 
عن ابی هريرة قال حفظت من رسول الله صلی الله عليه وسلم و عائين فاما اجدهما فبثثته فيکم فاما الاخر فلو بثثته لقطع هذا البلعوم (بخاری)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو ظرف اکٹھے کیے تھے، ایک ظرف کا علم تو میں نے تمہارے اندر پھیلا دیا رہا دوسرا ظرف تو اگر اس کے علم کو میں تمہارے اندر پھیلاؤں تو میری یہ گردن کاٹ دی جائے گی۔
 
اس حدیث سے یہ حضرات ثابت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہؓ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کردہ ایک ایسا ذخیرہ علم بھی تھا جس کی حیثیت بالکل ایک سر محفی کی تھی، جس کے حقائق اور باریکیوں کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہ تھا بلکہ صرف خاص خاص لوگ ہی اس کو سمجھ سکتے تھے۔ یہ علم ان حضرات کے خیال کے مطابق جمہور کے فہم اور ان کے مذاق و رحجان سے اس قدر مختلف بلکہ اس کے مخالف تھا کہ حضرت ابو ہریرہؓ ڈرتے تھے کہ اگر اس علم سے وہ پردہ اٹھا دیں تو لوگ ان کو جیتا نہ چھوڑیں۔
 
یہ نتائج نکال کر ان سے جو اثر جو یہ حضرات پیدا کرتے ہیں وہ ان نتائج سے بھی زیادہ اہم اور دور رس ہے جن کی آڑ لے کر یہ حضرات تصوف اور آئمہ تصوف کی ان ساری باتوں کو عین دین ثابت کرنا چاہتے ہیں جن کا کتاب و سنت سے کوئی جوڑ نہیں لگتا اور جن پر اہل حق ہمیشہ تنکیر کرتے رہے ہیں۔١۔ ظاہر ہے کہ اہل تصوف کے اسرار و کشوف کے لیے دین میں بڑی گنجائش نکل آتی ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ علم دین صرف اتنا ہی نہیں ہے جتنا قرآن و حدیث میں نظر آتا ہے بلکہ علم دین کا بہت بڑا حصہ عوام کے اندیشوں سے خواص کے سینوں ہی میں محفوظ رہا اور اگر ان سے منتقل ہوا بھی تو صرف خواص ہی تک محدود رہا۔ عام اہل علم کو ان کی ہوا بھی نہیں لگنے پائی، عام اہل علم جنہوں نے قرآن و حدیث کے الفاظ و کلمات کے واسطہ سے دین کو سیکھا ہے وہ تو صرف علم بالاحکام کے وارث ہوئے ہیں۔ اصلی علم تو علم باللہ اور اس کی وراثت صرف ان لوگوں کو منتقل ہوئی ہے۔ جنہوں نے اس علم سینہ میں سے کوئی حصہ پایا ہے۔
 
یہاں سے یہ حضرات ایک قدم اور آگے بڑھا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ "اہل حقیقت اور اہل ظاہر کے معیارات بالکل الگ الگ ہیں، اس وجہ سے ایک کی باتوں کو دوسرے کی کسوٹیوں پر جانچنا اصولی طور پر غلط ہے، اہل ظاہر جو کچھ کہتے ہیں وہ الفاظ کو دیکھ کر کہتے ہیں اور اہل حقیقت کی نگاہیں معانی کی رازداں ہوتی ہیں۔
 
قلندر ہر چہ گوید دیدہ دگوید
 
حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے یہ اثرات جو پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ خاصے سنگین ہیں اور ان کی زد ہماری پوری شریعت پر پڑتی ہے، اس وجہ سے نہایت ضروری ہے کہ ہم اس کا صحیح مطلب واضح کرنے کی کوشش کریں۔
 
ہمارے نزدیک حضرت ابو ہریرہ کے اس قول کے تین پہلو ہو سکتے ہیں:
 
ایک پہلو تو یہ ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ کو جب یہ باتیں بتائی ہوں تو ساتھ ہی ان کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہو کہ یہ دوسروں کو بتانے کی نہیں ہیں بلکہ پوشیدہ رکھنے کی ہیں، اگر تم نے ان کو ظاہر کیا تو یہ اندیشہ ہے کہ تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں۔
 
دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں بطور راز کے تو نہ بتائی ہوں بلکہ تعلیم و تبلیغ ہی کے لیے بتائی ہوں لیکن حضرت ابو ہریرہ کی زندگی ہی میں ماحول اس قدر بدل چکا ہو کہ وہ باتیں لوگوں کے لیے بالکل اوپری بن کے رہ گئی ہوں اور ان کو پیش کرنا پیش کرنے والے کے لیے خطرے سے خالی نہ رہ گیا ہو۔
 
تیسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں ایسی ہوں جن کے بیان و اظہار میں وقت کے ارباب اقتدار اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ اس وجہ سے ابو ہریرہؓ کو اندیشہ ہو کہ اگر وہ باتیں وہ بیان کرنی شروع کردیں تو وقت کے ارباب اقتدار کے ہاتھوں ان کی جان کی خیر نہ رہے۔
 
اب عقل و نقل اور روایت و دوایت سے ان تینوں پہلوؤں کو جانچئے اور پرکھیئے کہ ان میں سے کون سا پہلو واضح نظر آتا ہے۔
 
١۔ ان میں سے پہلی صورت تو بداہۃً غلط معلوم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ اول تو یہ ہے کہ اس طرح کی پر اسرار باتوں کا کوئی ذخیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ کرنا ہی ہوتا تو اس امانت کے لیے موزوں تر سینہ ان فقہا صحابہؓ میں سے کسی کا ہو سکتا تھا جو فہم و فقاہت اور راز دار دین ہونے کے لحاظ سے تمام صحابہ میں ممتاز تھے۔ اس کے لیے موزوں شخص حضرت ابو بکرؓ ہو سکتے ہیں، حضرت عمرؓ ہو سکتے تھے، حضرت عثمانؓ ہو سکتے تھے، حضرت علیؓ ہو سکتے تھے، حضرت زیدؓ بن ثابت ہو سکتے تھے، حضرت معاذ بن جبل ہو سکتے تھے، حضرت ابو الدرداؓ ہو سکتے تھے اور حضرت عائشہؓ ہو سکتی تھیں یہ لوگ صحابہ میں گل سر سبد کی حیثیت رکھتے تھے اور دین و شریعت کی باریکیوں کو سمجھنے اور مختلف چیزوں کے مدارج و مراتب کے امتیاز میں نمایاں درجہ رکھتے تھے اس وجہ سے بجا طور پر اس علم کے حامل اور امین ہونے کے زیادہ اہل تھے جس کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ:
 
بردار تواں گفت
بہ منبر نتواں گفت
 
حضرت ابو ہریرہؓ کا ایک محدّث اور کثیر الررویۃ صحابی ہونے کے لحاظ سے جو درجہ ہے اس سے کسی کو مجال انکار نہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ دین کی باریکیاں سمجھنے میں ان کا وہ مرتبہ نہیں ہے جو طبقہ اول کے صحابہؓ کا ہے اور اس حقیقت کو نبی صلعم سے زیادہ جاننے پہچاننے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
 
دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جو تعلیم و تلقین بھی فرمائی وہ چھپانے اور راز رکھنے کے لیے نہیں بلکہ سیکھنے اور سیکھانے کے لیے ہی فرمائی ہمیں قرآن یا حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے آنحضرت صلعم کی زندگی میں یا دوسرے انبیاء کی زندگی میں اس قسم کی صوفیانہ رازداری کا پتہ چلتا ہو۔خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بار بار صحابہؓ کو اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ جو کچھ آپؐ کی صحبت میں سنیں اور دیکھیں، اس کو دوسروں کو بتائیں، آپ نے فرمایا، ''میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو'' آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ، ''میرے منہ سے جو کچھ سنو اس کو محفوظ کر لو کیوں کہ میرے منہ سے کوئی بات غلط نہیں نکلا کرتی'' آپ ؐ حجۃ الوداع کے موقع پر سامعین کو یہ ہدایت فرمائی کہ جو لوگ موجود ہیں، وہ ان لوگوں کو یہ ساری باتیں بتائیں جو موجود نہیں ہیں کیوں کہ بہت سے لوگ دوسروں سے سن کر براہِ راست سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھتے ہیں، آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ حق جانتے ہوئے دوسروں کو اس کے بتانے سے گریز کریں گے قیامت کے دن اُن کے منہ میں آگ کی لگام لگائی جائے گی۔
 
اس طرح کی متعدد تاکیدات مختلف پہلوؤں سے ہمیں احادیث میں آپ ؐ کی طرف سے ملتی ہیں لیکن کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ آپؐ نے کسی ایک صحابیؓ سے بھی کوئی بات فرمائی ہو اور پھر یہ تاکید کی ہو کہ اس کو اپنے ہی تک راز رکھنا، دوسروں پر اس کو نہ کھولنا، ورنہ لوگ تمہاری جان کے دشمن بن جائیں گے۔ اس کے خلاف بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ آپؐ نے کوئی بات بتائی ہے۔اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی ہے کہ اس کو بتانا اور کہنا اگرچہ اس کے سبب سے لوگ تمہارے دشمن ہی بن جائیں اور تمہیں نقصان ہی پہنچائیں۔صرف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کی زندگیوں ہی میں نہیں بلکہ دوسرے انبیاء اور ان کے صحابہ کی زندگیوں میں بھی ہمیں اس طرح کی ہدایات و تاکیدات کم و بیش انہی الفاظ میں ملتی ہیں۔ حضرت مسیحؑ نے ایک مرتبہ اپنے شاگردوں کو کچھ ہدایات دیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ'' لوگ ان باتوں کے سبب سے تمہیں بازاروں میں کوڑے لگائیں گے اور عدالتوں میں مجرم ٹھہرائیں گے مگر تم ان باتوں کی پروا نہ کرنا، تمہارا آسمانی باپ تمہارے ساتھ ہے''۔
 
٢۔ اب دوسری صورت کو لیجیے، یعنی اس بات کو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں حضرت ابو ہریرہؓ کو سکھائی اور بتائی تو ہوں تبلیغ و تعلیم کے عام مقصد ہی کے تحت لیکن حضرت ابو ہریرہؓ کی زندگی ہی میں لوگوں کے حالات اس قدر متغیر ہو چکے ہوں کہ ان باتوں کو بتانا اور سکھانا جان جوکھوـں کا کام بن گیا ہو۔
 
اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ کی زندگی ہی میں زمانہ کے حالات بہت کچھ بدل چکے تھے، ان کی وفات خلافتِ راشدہ کے خاتمہ کے بعد بنی امیّہ کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر طلبِ دین کا جوش سرد پڑ رہا تھا اور طلب دنیا کی سرگرمیاں اس کی جگہ غالب آنی شروع ہو گئی تھیں لیکن اس انقلاب حال کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بنی امیہ کے دور میں (کم از کم شروع میں) عوام کا مزاج اس قدر نہیں بگڑا تھا کہ لوگ دین کی باتوں سے اس درجہ ناموس اور اور بیگانہ ہو جائیں کہ ان کو پیغمبرؐ کی حدیثیں سنانا بھی ایک پرخطر کام بن جائے اس دور میں جلیل القدر صحابہؓ کا ایک گروہ موجود تھا، ان کے شاگرد لوگ ہر جگہ موجود تھے، ان کا اعزازو احترام بھی اچھا خاصا لوگوں میں پایا جاتا تھا، احادیث کے نقل و روایت کی گرما گرمی بھی ہر جگہ موجود تھی، بہت سی خرابیوں کے پیدا ہونے کے باوجود، فضا ابھی اتنی خراب نہیں ہوئی تھی کہ دین کی باتوں کوبتانا اور سیکھانا دشوار ہو جائے اس دور میں عجمی علوم کا گھن بھی طبائع کو نہیں لگا تھا کہ لوگ اس فطری سادگی اور دل کشی سے بالکل ہی نا مانوس ہو جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اقوال میں پائی جاتی تھی، ذہنی اعتبار سے کچھ لوگ متغیر ضرور ہو گئے تھے لیکن اتنے پست نہیں ہو گئے تھے کہ ان میں اسلامی باتوں کو سمجھنے یا اسلامی اقدار کے احترام کی صلاحیت ہی سرے سے باقی نہ رہ گئی ہو۔ مسلمانوں کے ہر طبقہ میں دین کی سادہ اور عام تعلیمات کے سمجھنے والے موجود تھے اور دین کی گہری باتوں کو سمجھنے والے بھی ہر جگہ پائے جاتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ دین کی گہری باتوں کو سمجھنے کے اہل جس طرح ہر دور میں تھوڑے ہی پائے گئے ہیں، اسی طرح اس دور میں بھی ان کی تعداد تھوڑی تھی پس یہ بات کچھ صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ حضرت ابوہریرہؓ نے محض عوام کے فساد مذاق کے سبب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے علم کو ظاہر کرنے سے اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محسوس کیا ہو۔
 
٣۔ اب رہ گئی تیسری صورت، یعنی حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ ذخیرہ علم ایسی حدیثوں پر مشتمل ہو جن کے نقل و روایت اور جن کے پھیلنے میں وقت کے ارباب اقتدار اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوں۔
 
ہم کو یہی بات قرین قیاس اور عقل و نقل کے مطابق معلوم ہوتی ہے کیوں کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے بنو امیہ کا دور اور مروان اور امرا ئے مروان کا جو دور دیکھا تھا ان کی وفات ٥٨ھ؁ یا ٥٩ھ میں ہوئی ہے جب کہ مسلمان بنو امیہ کے جبر و استبداد کے شکنجے میں اچھی طرح کسے جا چکے تھے اور بنو امیہ تلوار کے زور سے ان تمام اہل حق کے دبا لینے کے درپے تھے جو ان کے استبداد اور ان کی سیاسی و اجتماعی بدعتوں کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کے ذخیرہ علم میں ایسی بہت سی حدیثیں تھیں جن میں اسلامی امراء و حکام کی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں یا جن میں بنو امیہ کے دور کے فتنوں ان کے "ملک عضوض" (استبداد) اور ان کے "چھوکروں" کی ستم رانیوں اور ان کے ہاتھوں دین اور اہل دین کی بربادی کی بابت حضورؐ نے پیش گوئیاں فرمائی تھیں، حضرت ابو ہریرہؓ نے اس قسم کی روایات کے ذخیرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں روزہ و نماز اور حج و زکوٰۃ کی حدیثوں کی طرح اجتماعی و سیاسی معاملات سے متعلق حدیثیں بھی کھلم کھلا بیان کرنا شروع کر دوں تو مستبدین وقت مجھے جیتا نہ چھوڑیں۔٢۔
 
حضرت ابو ہریرہؓ کے قول کا یہ مطلب عقل و نقل اور روایت و درایت کے بالکل مطابق معلوم ہوتا ہے اور صرف میں نے ہی اس کا یہ مطلب نہیں سمجھا ہے بلکہ دوسرے شارحین حدیث بھی اس مطلب کی طرف گئے ہیں، چنانچہ لمعات میں اس کا یہ مطلب بیان کیا گیا ہے:
 
و قيل اراد به اخبار الفتن و فساد الدين علی يدا غيلمة من قريش و کان ابو هريرة يکنی عن بعض ولا يصرح به خوفاً علی نفسه کقوله اعوذ بالله من امارة الصبيان يشير انی امارة يزيد بن معاوية۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے حضرت ابو ہریرہؓ کا اشارہ ان احادیث کی طرف ہے جو فتنوں سے متعلق ہیں اور جن میں قریش (بنو امیہ) کے چھوکروں کے ہاتھوں دین کی بربادی کی پیشن گوئیاں ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ ان میں سے بعض کی طرف اپنے اقوال اور دعاؤں میں اشارہ بھی کرتے تھے لیکن اندیشہ جان کے سبب سے نام لے کر ان کا ذکر نہیں کرتے تھے مثلاً وہ کہا کرتے تھے: "میں چھوکروں کی امارت سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں"۔ اور اس سے ان کا اشارہ یزید بن معاویہ کی امارت کی طرف ہوتا تھا۔
 
دوسری حدیث جس میں یہ حضرات اپنے باطنی علم کی تائید میں استدلال کرتے ہیں وہ عبد اللہ بن مسعود سے ان الفاظ میں مروی ہے:
 
عن ابن مسعود قال قال لی رسول الله صلی الله عليه وسلم انزل القرآن علی سبعة حرفٍ لکل اٰيةٍ منها ظهر و بطن۔ (الحديث)
عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ قرآن سات قراتوں پر نازل ہوا ہے اور ان میں سے ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن۔
 
اسی حدیث کے ہم معنی حضرت عبداللہ بن عباس کا ایک قول بھی ہے جس میں انہوں نے قرآن کے ایک دریائے معانی ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔
 
اس میں شبہ نہیں کہ قرآن ایک دریائے معانی ہے، قرآن کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے، قران میں تمام علم اولین اور تمام علم آخرین ہے، قرآن کی تازگی پر کبھی باسی پن نہیں آئے گا، قرآن سے اہل علم کبھی آسودہ نہیں ہوں گے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر حقیقت ہیں اور ان لوگوں سے منقول ہیں جو قرآن کے رازداں رہے ہیں، لیکن اس مضمون کی احادیث و آثار اور اس کے ہم معنی اقوال و اشارات سے یہ استدلال کرنا کہ قرآن نے ایک ایسا علم باطن بھی دیا ہے جس کے حامل ہر دور میں صرف چند نفوس قدسیہ ہی رہے ہیں اور انہی کے ذریعہ سے یہ علم ہر دور کے مخصوص حاملین کو سینہ بہ سینہ منتقل ہوا ہے، ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے، اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک باطن بھی ہے لیکن اس کا کوئی باطن نہیں ہے جس کی راہنمائی خود اس کا ظاہر نہ کرتا ہو، قرآن کے اندر اسرار حکمت کا لا ریب ایک خزانہ ہے لیکن اس خزانہ کی کلید خود قرآن کے ہی الفاظ و اشارات ہیں، قرآن سے باہر ان کی کلید نہیں ہے، قرآن کے علوم کا ایک حصہ اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے، ایک حصہ اس کے اشارات سے کھلتا ہے، ایک بہت بڑا حصہ اس کے سیاق و سباق سے بے نقاب ہوتا ہے اور پھر سب سے بڑا خزانہ اس کے نظام معرفت سے سامنے آتا ہے۔ جو لوگ قرآن پر تدبر کرتے ہیں وہ بقدر استعداد اس سے فیض پاتے ہیں اور وہ اپنی ہر بات قرآن ہی کے الفاظ و اشارات اور سیاق و نظام سے دلیل لاتے ہیں، اس معاملہ میں مجرد و ذوق یا کشف یا مشاہدہ کو دلیل راہ نہیں بناتے۔ ایک فقیہہ جس طرح قرآن حکیم سے ایک فقہی حکم مستنبط کرتا ہے، اور اس پر قرآن کے الفاظ یا اشارات سے کوئی دلیل پیش کرتا ہے اور اگر وہ اس طرح کی دلیل نہ پیش کرے تو اس کی بات بالکل بے وزن ہو کے رہ جاتی ہے، اسی طرح ایک "صاحب اسرار" کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہر سرّ پر جس کے متعلق اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے قرآن سے سمجھا ہے، قرآن سے دلیل لائے اور اگر وہ قرآن سے دلیل نہ لا سکے تو اس کے اس نکتہ کی کوئی وقعت نہیں اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ اس نے یہ نکتہ خانہ کعبہ کے اندر قرآن کی روحانیت کی طرف توجہ کے ذریعے سے حاصل کیا ہے۔٣۔
 
پس جہاں تک قرآن کے اندر اسرار و حِکَم کے موجود ہونے کا تعلق ہے اس سے کسی کو انکار کی مجال نہیں ہے لیکن اسرار و حِکَم کے اس خزانہ پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے اس خزانہ میں سے بقدر صلاحیت و استعداد وہ لوگ حصہ پاتے ہیں جو کتاب الہٰی پر تدبر کرتے ہیں اور ان شرائط کے ماتحت تدبر کرتے ہیں جو قرآن پر تدبر کے لیے مقرر ہیں۔ حضرات صوفیائے کرام نے جو اسرار و معارف کیے ہیں ان کا وہ حصہ بے شک صحیح ہے جو انہوں نے قرآن کے تدبر کے ذریعے سے حاصل کیا ہے اور جس پر وہ قرآن سے کوئی دلیل رکھتے ہیں مگر مجرد اس بنا پر کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک باطن بھی ہے، علم باطن کا ایک پورا نظام کھڑا کر دینا اور اس کی حمایت میں مذکورہ بالا حدیثوں سے دلیل لانا صریح زیادتی ہے۔
 
باطن نماز کا بھی ہے، باطن روزہ کا بھی ہے، باطن حج کا بھی ہے، باطن زکوٰۃ کا بھی ہے اور قرآن نے صاف صاف اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان میں سے ہر چیز کا ایک باطن ہے اور وہی باطن مقصود حقیقی ہے لیکن اس کے معنی ہر گز یہ نہیں ہیں کہ کوئی شخص اٹھ کر ان عبادات کی ساری صورت و ہیئت بالکل بدل ڈالے اور جب کوئی شخص اس پر اعتراض کرے تو وہ جواب دے کہ "یہ باتیں باطن سے تعلق رکھنے والی ہیں، ان کو اہل ظاہر کیا جانیں"۔ قرآن نے جہاں یہ بتایا ہے کہ ان میں سے ہر ظاہر کا ایک باطن ہے۔ وہیں یہ بھی اشارہ کر دیا ہے کہ فلاں ظاہر کا باطن یہ ہے تا کہ کسی بے راہ روی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
 
_________________
١۔ اس کی مثالیں مناسب مواقع پر ہماری اس کتاب میں آئیں گی۔
٢۔ حضرت ابو ہریرہؓ کے اس قول کا مطلب تو بلاشبہ یہی ہے لیکن اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس طرح جان کے اندیشہ سے صحابہؓ نے رسولؐ کے دیے ہوئے علم کے ایک بڑے حصہ کو ضائع کر دیا اور وہ امت کی طرف منتقل ہونے ہی سے رہ گیا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ ان روایات کو سرے سے بیان ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ان چیزوں کے بیان کرنے میں محتاط ہو گئے ہیں، ان کو آزادی کے ساتھ اپنے اہل اور لائق شاگردوں ہی سے بیان کرتے تھے، ان ہی کے ذریعہ سے ان کا علم بعد والوں کو منتقل ہوا، یہی وجہ ہے کہ بہت سی حدیثوں کی شہرت پہلے دور میں نہیں ہوئی بلکہ دوسرے یا تیسرے دور میں ہوئی لیکن بہر حال علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضائع نہیں ہوا بلکہ اسلاف سے اخلاف تک منتقل ہو گیا اور یہی ہمارے سنت صالحین کی ذمہ داری تھی۔
امین اصلاحی صاحب کے مضمون سے انتخاب

0 comments :